Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

وہ کمرے میں آئی تو ہر طرف بے ترتیبی پھیلی ہوئی تھی۔ صوفے کے کشنز ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے، بیڈ سے چادر سمٹی ہوئی تھی اور تکیے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے، رائٹنگ ٹیبل پر رکھی کتابوں کو بھی منتشر کیا گیا تھا اور اس پر رکھے لیمپ کی گردن کو بھی فراخدلی سے مروڑا گیا تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اس کے برش و پرفیوم بھی کسی مدہوش شرابی کی طرح لڑھکے ہوئے تھے۔
غصے و صدمے سے چند ثانیے تو وہ گنگ رہ گئی تھی ۔ 

یہ کمرا جس کی ہر شے سے اسے انسیت و محبت تھی، جہاں کے درودیوار سے اسے مہک آتی تھی۔ ایک ایسا لمس محسوس ہوتا تھا جو ماں کی گود اور اس کی آغوش میں محسوس ہوتا تھا، اس کمرے میں داخل ہوتی ہی اسے لگتا وہ میٹھی ٹھنڈی پرسکون چھاؤں میں آگئی ہو۔ اس کی تمام بے چینیاں ، اضطراب اپنا وجود کھوبیٹھتے تھے۔
(جاری ہے)

یہ کمرا جو اس کا ہمدم تھا ، ہم راز تھا اس کو چھیننے کی ، قبضہ کرنے کی اس سے ماضی میں بھی کوششیں کی گئی تھیں اور اب حال میں بھی سعی جاری تھی۔ عادلہ گزشتہ دو سال سے اس ضد باندھ کر بیٹھی تھی کہ اس کا کمرا وہ لینا چاہتی تھی۔ عادلہ جو عمر میں اس سے چند ماہ ہی چھوٹی تھی مگر رتی بھر بھی وہ اسے اہمیت دینے کی روادار نہ تھی۔ وہ ہمیشہ اس کی ضد ثابت ہوئی تھی ۔
اب بھی کمرے میں یہ تمام تخریب کاری اس کی شدت پسند طبیعت کی عکاس تھی۔ وہ برملا کہہ چکی تھی اس کمرے میں وہ اسے بھی سکون سے نہیں رہنے دے گی۔ 

”عادلہ ڈیئر! میں میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ یہ تمام سامان کیا، اگر تم یہاں کی ایک ایک اینٹ بھی اکھیڑ کر پھینک دو گے تو میں ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ تم نے مما اور سب نے کیا کچھ نہیں کیا یہ کمرا مجھ سے چھیننے کے لیے مگر ناکام رہے اور تم بھی ہمیشہ ناکام رہوگی“

اس نے اپنے ٹوٹتے بکھرتے عزم کو از سر نو تازہ کیا اور جت گئی کمرے کی درستگی میں…پھر چند گھنٹوں بعد ہی کمرا اپنی مخصوص آب و تاب سے چمک اٹھا تھا اور وہ بڑے پیار سے ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔
 

”پری، پری…او پری!“دادی ہاتھ میں تسبیح پکڑے اسے پکارتی اندر آئی تھیں۔ ”ارے کم بخت کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھی ہے یا زبان کٹوادی ہے؟“

”میری زبان کیوں کٹے؟ ہاتھ کٹیں عادلہ کے جن سے اس نے میرے کمرے کو کباڑ خانہ بناکر رکھ دیا تھا، پورے ڈھائی گھنٹے کی محنت کے بعد میرا کمرا اپنی اصل صورت میں لوٹا ہے۔ عادلہ کچھ بھی کرلے، میں کمرا اسے دینے والی نہیں ہوں“

”کمرا…کمرا…کمرا! میں کہتی ہوں کیوں ہروقت تیرے دماغ میں کمرا گھسا رہتا ہے لڑکی کون سا خزانہ دفن ہے یہاں؟“دادی کی زبان رواں ہوئی تو تسبیح کے دانوں پر حرکت کرتی ان کی انگلیاں رک گئیں۔
 

”ماضی کسی خزانے سے کم نہیں ہوتا، میرے ماضی کا خزانہ دفن ہے یہاں “

”بڑا شاہانہ ماضی گزرا ہے تیرا“ان کے لہجے میں طنزیہ رنج ابھر آیا۔ 

”ماضی جیسا بھی ہو، ماضی ہوتا ہے “اس کی دھیمی آواز ابھری۔

”اچھا…اب بس کر ۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بات کا جواب دیا جائے ۔“

”سوری دادی جان! میں نے آپ کی آواز سنی نہیں، آپ کیا کہہ رہی تھیں؟“ اس نے ان کے قریب صوفے پر بیٹھ کر پوچھا۔
اس کا موڈ درست ہوا تو دادی کے چہرے پر بھی وہ مسکراہٹ اور خوشی در آئی جو یہاں آنے سے قبل تھی۔ ”اوہو! آپ مسکرارہی ہیں، اس کا مطلب ہے کوئی اچھی خبر ہے آپ کے پاس “آن واحد میں وہ ان سے چپک کر گلے میں بازو ڈال کر بولی۔ 

”کہہ تو ایسے رہی ہو جیسے میں کبھی مسکراتی نہیں ہوں “

”لیکن آج تو آپ کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ وہ بھی گلاب کے۔
خدا را دادی! جلدی بتائیں نا! کیا خبر ہے؟“وہ سخت مضطرب ہوئی جاننے کے لیے ۔ 

”ہاں…ہاں باتوں میں تم سے کون جیت سکتا ہے بھلا“دادی کے تیور ایک دم ہی وقت کی طرح بدلنے لگے تو اس کے اندر خطرے کا سائرن بجا۔ دادی اور وہ اک جان دو قالب تھیں، دادی جسم تھیں تو وہ اِن کی پرچھائیں تھی۔ دونوں ہی ایک دوسری کے بغیر رہنے کی عادی نہ تھیں۔ دادی کا وجود اس کے لیے ٹھنڈک میٹھے چشمے کے آب رواں کی طرح تھا۔
کبھی وہ گہری رازدار سہیلیوں کی طرح سر جوڑے گفتگو میں مصروف ہوتیں اور کبھی اس کی بے حد جذباتی و جلد باز فطرت کے باعث وہ ان سے بھرپور ڈانٹ سن رہی ہوتی۔ مگر یہ سب چند لمحات کے لیے ہوتا پھر راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اس کی اور دادی جان کی مثالی دوستی کے کسی وقت میں ایک ہستی نے بڑی بے رحمی سے پرخچے اڑائے تھے اور تقریباً دادی کو اس سے چھین لیا تھا۔
وہ اس دوران کو یا بالکل تہی دست و تہی داماں ہوکر رہ گئی تھی اور اب ایک عرصے کے بعد ان کے چہرے پر نمودار ہونے والی مسرت و شادمانی اس بات کی علامت تھی کہ ان کے درمیان پھر فاصلہ بڑھنے والا ہے۔ 

”دادی جان ! بتائیں نا“خوشی و تجسس کی جگہ فکر و اندیشوں نے لے لی۔ 

”ہاں…تمہارے تاؤ کا فون آیا تھا ، کچھ دیر قبل…“مسر ت اور طمانیت نے ان کا پھر احاطہ کیا تھا شدت سے۔
 

”واہ! آرہے ہیں نا تاؤ جان؟“تایا کے ذکر پر اس کے چہرے پر چمک در آئی تھی۔ 

”بے صبری دنیا بھر کی! پہلے سن تو لے پوری بات“وہ ڈپٹ کر بولیں۔ ”فراز نہیں آرہا ہے، وہ بہو اور طغرل کو بھیج رہا ہے، خود بعد میں آئے گا۔“طغرل کے نام پر ان کی آنکھوں و چہرے پر ہوتے چراغاں نے اس کے اندر آگ سی بھڑکادی تھی، اس کا پور پور سلگ اٹھا تھا۔ 

”تاؤ جان کو آنا چاہیے تھا وہ کتنے عرصے سے نہیں آئے ہیں “

”اچھا !طغرل تو ہر روز چکر لگاتا ہے یہاں؟“وہ اس کو جلتے دیکھ کر کاٹ دار لہجے میں گویا ہوئیں۔

”اگر وہ یہاں اسی شہر میں ہوتا تو صبح، دوپہر، شام یہاں ہی جما رہتا“

”ارے دماغ درست ہے؟ کس طرح پکار رہی ہو طغرل کو؟ تمیز و ادب سے تو تمہارا دور کا بھی تعلق محسوس نہیں ہورہا۔ کس بے شرمی سے کہہ رہی ہو“حسب عادت وہ طغرل کے معاملے میں آنکھیں بدل بیٹھیں۔ 

”ایک نہ دو پورے تین سال بڑا ہے تم سے ، ادب کرنا سیکھو“دادی نے تین کو اس قدر جماکر کہا کہ گویا تین نہ ہو، تیس سال بڑا ہو۔
”پرسوں آرہے ہیں دونوں ماں بیٹے اور کان صاف کرکے سن لو، ہمیشہ کی طرح بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے، گھر میں بیٹھ کر ماں بہنوں کی کام میں مدد کرنا، وہ دونوں ہی ہوں گے ان کی وجہ سے کام تو معمولی سا ہی بڑھے گا۔ مگر ان سے ملنے ملانے والوں کا آنا جانا بھی لگا ہی رہے گا“وہ چہرہ چھپائے ناگواری سے ان کی ہدایتیں سن رہی تھی۔ 

”آپ فکر نہ کریں، میں نے آپ کی تمام ہدایتیں پلو سے باندھ لی ہیں۔
جیسا آپ چاہیں گی ویسا ہی ہوگا اور کوئی حکم ہو تو وہ بھی دے دیں۔ “ 

”یہ کمرا طغرل کو دینا ہوگا تم کو…“

”مے…را…کم…را؟“دادی نے جتنی آہستگی سے کہا تھا وہ اس قدر ہی گلا پھارٹی اٹھ کھڑی ہوئی تو دادی بھی کھڑی ہوگئیں۔ ”میرا کمرا…اور میں کسی کو دے دوں؟ ناممکن ہے دادی جان!“وہ تو گویا انگاروں پر لوٹنے لگی تھی، ہر طرف جلن ہی جلن تھی۔
 

”مرو نہیں، کمرا ہی مانگا ہے کوئی جان نہیں، جو بن مچھلی بن جل گئی ہو“ان کا لہجہ سخت و کٹھور ہوگیا۔ ساری مسرت و محبت ہوا ہوگئی تھی۔ 

”دادی جان! میں جان دے دوں گی مگر کمرا ہرگز ہرگز نہیں دوں گی“

”بلاوجہ بحث مت کرو۔ کمرا تو تمہیں دینا ہوگا ہر حال میں“

”میں کمرا نہیں دوں گی، نہیں دوں گی اور نہیں دوں گی ۔ جس کو دیکھو میرے کمرے پر نظر رکھتا ہے، اس گھر میں اور بھی کمرے ہیں ان میں سے کوئی سا دے دیں“

”بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں دادی! یہ کمرا کسی کو نہیں دے گی اور دیکھنا اسی کمرے میں اس کا مزار بنے گا“عادلہ جو باہر کھڑی سب سن رہی تھی اندر آکر تمسخرانہ لہجے میں بولی۔
 

”میرے مزار پر قوالی تم ہی کروگی نا!“وہ دوبدو گویا ہوئی۔ 

”تم ایسی نیک ہو“وہ چڑگئی۔ 

”مگر مزار تو نیک لوگوں کے ہی بنتے ہیں “

”چپ ہوجاؤ۔ اری عادلہ! قد تو تیرا بڑھتے بڑھتے رک گیا مگر یہ سارے جہاں کی فسادن زبان تیری، دن بدن لمبی ہوتی جارہی ہے، روک لے اس کو وگرنہ تیرے باپ کو ایک ملازم رکھنا پڑے گا جو تیرے پیچھے پیچھے تیری لمبی زبان پکڑے چلے گا“دادی کی بات پر غصے کے باوجود پری ہنسی ضبط نہ کرسکی تھی اور ہنستی چلی گئی۔

”بس بس …آپ تو میری بے عزتی کرتی رہیں۔ ہونہہ!“مارے غصے و توہین کے وہ تنتناتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ 

”بس! اب اپنے دانت اندر کرلو اور کمرا طغرل کے لیے سنوارنا شروع کردو۔ “عادلہ کے جانے کے بعد وہ بھی کہتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ 

###

”بہن رضیہ!بات کی تم نے منیر بھائی سے؟“کپڑے استری کرتی رجاء نے پڑوسن خالہ حاجرہ کی آواز سن کر منہ بنایا۔
 

”ہاں…آؤ بیٹھو ، میں نے بات کی تھی کل رات رجاء کے ابو سے “حاجرہ پرتجسس انداز میں پلنگ پر ان کے قریب بیٹھ گئی“وہ کہہ رہے ہیں، محلے میں سب ہی تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں ہے منہ در منہ بات کرنے کی۔ کوئی ساتھ دینے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ایسے مسئلے تنہا بندے سے حل کہا ں ہوتے ہیں ، جب تک سب ساتھ نہ دیں؟“

”بھائی منیر کو ایسے ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔
اگر ہمارے محلے میں ایسے لوگ بسنے لگیں تو ہم جیسے شرفا ء کہاں جائیں گے بھلا؟“وہ تیکھے لہجے میں گویا ہوئیں۔

”تم بھائی برکت کو کیوں نہیں سمجھاتیں۔ انہیں بھی…“

”ان کی تو بات چھوڑو، وہ تو بہت ہی سیدھے ہیں ، گھر میں بھی کم بات کرتے ہیں “حاجرہ ان کی بات قطع کرکے اطمینان سے گویا ہوئی۔ 

”انسان کو اتنا سیدھا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ حق کی بات ہی نہ کرسکے“

”خیر، باتیں تو وہ بہت اچھی کرتے ہیں مگر ان معاملوں سے دور رہتے ہیں“

”رجاء کے ابو بھی ایسے ہی ہیں، ان کی یہی کوشش ہوتی ہے پڑوسیوں کو ان کی ذات سے کوئی معمولی سی بھی تکلیف نہ پہنچے، ہمارے مذہب میں پڑوسیوں کے حقوق کا درجہ بہت زیادہ ہے“رضیہ بھی کاٹتے ہوئے بولی۔
 

”جب پڑوس میں ایسے لوگ آجائیں تو پھر…“

”ایک بات کہوں؟مجھے وہ عورت ٹھیک لگی ، ارد گرد سے بے خبر، اپنی ذات میں گم، بڑی سی چادر میں اس نے خود کو ڈھانپا ہوا تھا“ 

”اچھا!تم کو کہاں مل گئی وہ؟“حاجرہ کے لہجے میں بلا کا اشتیاق پیدا ہوا۔

”کل رجاء کو کالج سے دیر ہوگئی تھی، میں وین دیکھنے گئی تھی، وہ بھی اسٹاپ سے آرہی تھی تب دیکھا اس کو قریب سے، مجھے اس میں ایسی کوئی بات نظر نہ آئی“

”کوئی بات نہ ہوئی؟تمہارے تو گھر کے بالکل سامنے رہتی ہے “

”نہیں…میں بھی جلدی میں تھی، اس لیے کوئی بات نہ ہوسکی“

”تم جلدی میں تھیں وہ تو جلدی میں نہ ہوگی۔
یوں سمجھ لو حسین ہونے کے ساتھ مغرور بھی ہے تب ہی تم سے مروتاً بھی بات نہ کی “

”آداب خالہ! “رجاء شربت کے گلاس ٹرے میں رکھے اندر آئی تو حاجرہ بولی۔ 

”کہاں کی تیاری ہے؟“وہ گلاس تھام کر اس کو کھوجتی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

”کوچنگ سینٹر جاؤں گی ، دوست کا انتظار کر رہی ہوں “وہ امی سے گوبھی لے کر کچن کی طرف چلی گئی۔ 

”رضیہ بہن!کیا کروگی اتنا پڑھا کر؟ صبح و شام اسے کتابیں سنبھالے آتے جاتے دیکھتی ہوں، وقت اچھا نہیں ہے، میری مانو تو گھر بٹھالو اور گھرداری سکھاؤ، سسرال میں کتابیں کام تھوڑی آتی ہیں ، سلیقہ مندی و ہنر کام آتے ہیں۔
میں نے اپنی بچیوں کو میٹرک سے آگے پڑھنے نہیں دیا “

”یہ زیادتی کی ہے تم نے بچیوں کے ساتھ …تعلیم شعور دیتی ہے ، اس سے زندگی کے مرحلے بہت آسا ن ہوجاتے ہیں، اصل زیور عورت کا تعلیم ہے “انہوں نے گلاس خالی کرکے ٹرے میں رکھے تو رجاء اٹھاکر لے گئی۔ وہ پان بنانے لگیں۔ 

”تم کہہ رہی تھیں رجاء کی بات تمہاری نند کے بیٹے سے طے ہے تو کیا وہ بھی نہیں کہہ رہی ہیں شادی کے لیے؟خیر سے ایک عرصہ ہوگیا منگنی کو“

کمرے میں عبایا پہنتی رجاء کے چہرے پر بے زاری پھیل گئی تھی ۔

”نہیں دراصل یہ جبر ان کی ہی خواہش ہے کہ رجاء، اعلیٰ تعلیم حاصل کرے“

”عجیب لڑکا ہے جو خود ایسی خواہش کیے بیٹھا ہے ورنہ آج کل تو لڑکے ہتھیلی پر سرسوں جمائے پھرتے ہیں کہ لڑکی دیکھی نہیں اور شادی کی رٹ شروع“

”امی! وہ آگئی ہے، میں جارہی ہوں“وہ کتابیں اٹھائے بولی۔ 

”اچھا ! حجاب ٹھیک طرح سے لگاؤ، ڈھیلا ہورہا ہے، “ماں کی تاکید پر اس نے حجاب درست کیا تھا اور گیٹ پر کھڑی وردہ کے ساتھ گھر سے باہر نکل آئی تھی۔
ماں کی تنبیہہ پر وہ پشیمان سی ہوگئی تھی۔ 

”خالہ بی جمالو! آج کل تمہارے گھر کے خوب چکرلگارہی ہیں۔ خیر تو ہے۔“گلی سے باہر نکلتے ہی وردہ کی تمام سنجیدگی غائب ہوچکی تھی۔ 

”شرم کرو، عمر میں وہ تم سے کتنی بڑی ہیں “رجاء کے کہنے پر وہ ہنس کر بولی۔ 

”میں کیا سارا محلہ ان کو اسی عرفیت سے پکارتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو ان کو ”ماچس“بھی کہتے ہیں، جہاں جاتی ہیں آگ لگاتی ہیں “

   3
1 Comments

fiza Tanvi

19-Feb-2022 10:26 AM

Good

Reply